مجھے معاف کردو میں بے بس ہوں

مجھے معاف کردو میں بے بس ہوں
 شہداد شاد
24 نومبر 2018
شالکوٹ

الکیمسٹ کتاب جو دنیا میں سب سے مقبول ترین اور سب سے زیادہ بکنے والی کتاب ہے جو 67 سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہے۔ اس کتاب میں ایک بات بار بار دہرایا جاتا ہے کہاگر تم کسی چیز کو سچّے دل سے چاہو تو پوری کائنات اسے تمہیں ملانے کا ساتھ دیتا ہے۔ کبھی کبھار ہم بھی پاگلوں کی طرح اللہ پہ یقین رکھنے کے ساتھ ساتھ کتابوں پہ بھی یقین رکھتے تھے( مجھے نہیں پتا کہ یہ کفر ہے جو بھی ہے مجھے اس سے کوئی واستہ نہیں)۔
اس سے شناسائی ہوئے کئی سال ہوگئے ہیں۔ اس کی ہرچیز میرے لیے باعث خوشی تھی اور ہے بھی۔ وہ جب بھی مُسکراتی تھیں تو ایسا لگتا کہ دنیا میں ہرکوئی خوش ہے۔ کہیں بھی انسانیت کا استحصال نہیں ہورہا۔ کہیں بھی مسخ شدہ لاش نہیں گِر رہے۔ کوئی اپنی پیاروں کی بازیابی کے لیے پریس کلب اور احتجاجی مظاہروں کے چکر نہیں کاٹ رہے۔ انسانیت کا حق تلفی نہیں ہورہا۔ 
میں اس کے ساتھ یا اس سے جڑے گزارے لمحات کبھی نہیں بھول پایا اور نہ ہی کبھی پھول پاؤں گا۔ کیونکہ جب میں گِرتا تو وہی مجھے اٹھاتیں۔ جب میں روتا تو وہیں مجھے مناتیں۔ اسی نے مجھے ناقابلِ سے قابل بنایا۔ آج اگر میں لفظِ انسانیت، درد، احساس اور جزبات جیسی چیزوں سے گہی واقفیت رکھتا ہوں اور جگہ جگہ ان چیزوں کا ذکر کرتا ہوں تو یہ سب اسی کی مہربانی ہے۔ ہمیشہ پتاجی کی طرح مجھے ایک اچھا اور زندہ انسان رہنے کی درس دیتی تھیں۔ جب بھی پتاجی کی کمی محسوس کرتا تو میں اپنی ماں اور اسی کو یاد کرتا۔ لیکن آج۔۔۔۔۔۔۔
جانے وفا!
تمہیں یاد ہے جب ہم بڑی مشکل کے ساتھ ایک دفعہ ملے تھے۔ اور جب میرا سر تمہاری تکیہ سے بھی نرم اور آرام دہ پاؤں پہ رکھا تھا اور تم مجھے غور سے دیکھ رہی تھیں۔ میں نے تمہیں مزاقاً کہا کہ اگر میں کسی اور کی ہوجاؤں؟ یہ سنتے ہی تم نے فوراً بعد اپنی نرم ہاتھ میری منہ پہ رکھتے ہوئے کہہ دی کہشاد! یہ کس چیز کی سزا تم مجھے دے رہے ہو؟ تم یہ بات کیسے سوچ سکے؟ تم میں اتنی ہمت اور ساخت کہاں سے آگئی؟یہ الفاظ کہنے کے بعد تم شاید  مزید کہنا چاہتی تھیں مگر ۔۔۔ اور اسی لمحے مجھے سسکیوں کی آواز سننے میں آیا جب میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو تمہاری جنّت جیسی بدن آنسوؤں سے تر ہوچکی تھی۔ میں یہ دیکھ کہ تباہ ہوگیا جس طرح آج ہوں۔
کچھ لمحے کے لیے دونوں طرف سے خاموشی ہوئی!
پھر اس کے بعد جب میرا ہاتھ آپ پہ پڑی تو آپکی بدن بہت گرم ہوچکی تھی۔ شاید زیادہ رونے سے۔۔۔۔۔
تمہیں یاد ہے تم نے رخصت ہوتے وقت یہ بات کہی تھی کہشاد تم میری زندگی ہو اور تمھیں اپنی خدا کا واسطہ میری زندگی کو مجھ سے مت چھین لو۔ میں آپ کا منتظر ہوں۔’ 
تمہیں یاد ہو کہ تم نے ایک دفعہ ذکر کیا تھا کہ میں نے خواب میں ہم دونوں کو ہمیشہ کے لیے ساتھ ہوتے دیکھی ہے۔ 
تمہاری دی ہوئی ساری چیزیں میرے پاس آج بھی اسی حالت میں رکھی ہوئی ہیں جس حالت میں تم نے تحفطاً دی تھیں۔
تمھیں مزے کی بات بتادوں؟ تمہاری وہ بچپن کی تصویر جس میں تم تقریباً ایک سال کی ہو۔ وہ آج بھی میرے بٹوے میں ہے۔ ( بٹوا میں صرف اور تصویر ہے اور کچھ بھی نہیں)۔ میں اس کو ہر روز نکال کہ دیکھتا ہوں۔ تم بچپن میں بھی کتنی پیاری تھی ناں!
تم نے ہمیشہ بڑا آدمی بننے کی بات کی تھی اور میں ہمیشہ یہی جواب دیتا تھا کہ میرے نزدیک بڑا آدمی بننا انسانیت کی قدر و قیمت کرنا ہے اور تم اس جواب کے سننے کے بعد مسکراتی تھیں۔
لیکن آج یہ سب یاد بن گئی ہیں یار۔
بقولِ گُمنام شاعر
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میری
آہ! مگر اب میں اس کی مسکراہٹ کو یاد کرتا ہوں تو میں کانپنے لگتا ہوں۔ میرا دل لرزنے لگتا ہے۔ میں اپنی یاد داشت کھو دیتا ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے دنیا میں سب کچھ تباہ ہوچکا ہے، انسانیت کی استحصال ہورہی ہے۔ مسخ شدہ لاشوں کے گرنے میں شدت آئی ہے۔ پریس کلب میں گہار سیما کے ساتھ اور ہزار خواتین اپنی پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں مگر غیرت مند بلوچ مرد جو ہرجگہ فخر سے کہتے تھے کہما لجّیں گہارانیچند ہی موجود تھے وہ بھی ڈر رہے تھے۔ 
آج میں یہ کیسے مان لوں کہ آپکی زندگی کو زبردستی آپ سے جدا کرلیا گیا ے۔ آج میں کیسے مان لوں کہ خدا ظلم اور ظالم کا ساتھ دے رہا ہے؟ 
یہ کونسا رسم ہے جس میں انسانیت کا گلہ دبایا جاتا ہو۔ جس میں خواہشات کا جنازہ نکالا جاتا ہو۔ دوسروں پہ اپنی مرضی مسلط کی جاتی ہو؟ یہ رسم و رواج اور انصاف ہے یا ظلم و ستم؟ یہاں صاف صاف کیوں نہیں کہا جاتا کہ ہم رسم و رواج کے نام پہ ظلم ڈھا رہے ہیں۔
آج تو الکیمسٹ میں لکھی بات جھوٹ نکلا۔ آج تو وفا اور انصاف پہ لکھی گئی کروڑوں کتابیں جھوٹ نکلیں۔ آج دنیا میں انصاف دینے والے اداروں کی تذلیل ہوگئی۔ کاش آج کوئی جج وغیرہ اس ناانصافی کا بھی ازخود نوٹس لیتا مگر کیا کہوں! یہاں تو خدا خود ناانصافی کرنے میں ملوث نکلا۔
جانے من!
لیکن تم ہمیشہ میرے ساتھ رہوگی! تمھاری یادیں، باتیں، ملاقاتیں میرے لیے ہمیشہ یادگار رہیں گی۔ میں شاید اس کے لکھنے، سوچنے اور کرنے کی صلاحیت کھودوں! اس سے پہلے یہ بات واضع کردوں کہ تم ہمیشہ میرے دل میں رہوگی! مگر میں اب بھی یہ یقین نہیں کرسکتا کہ۔۔۔۔۔ 
میں تم سے مخاطب ہوں! تم خاموش کیوں ہو؟ تمہاری خاموشی نے ہی یہ حالت بنارکھا ہے ہم دونوں کا۔ آج تو اپنی خاموشی تھوڑ دو ۔۔
واہ کمال ہوگیا! اس نے اپنی خاموشی تھوڑ دی آج! اس کی ایک پیغام آئی ہے کھول کہ دیکھتے ہوں اور مجھے امید ہے کہ اس میں ضرور کوئی خوشی کی بات ہوگی کیونکہ یہی تو میری خوشی ہے۔
پیغام کھولتے ہی دیکھا کہ اردو میں ایک بات لکھی تھی اور وہ یہ تھی کہ:
گھر والوں نے میرا رشتہ مجھ سے پوچھے بِنا زبردستی کسی سے طے کرلیا ہے ۔ میری لاکھ رونے اور درخواست کے باوجود کسی نے کچھ نہیں سنُا اور آپس میں یہ کہہ تھے کہ لڑکا اچھا ہے پیسہ والا ہے فلاں ملک میں اس کا کاروبار ہے۔ اور مجھے معاف کردو میں بے بس ہوں

میں خاموش رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Unknown said…
Be jaan si hai zindgii
Har sans hai ghamzada...😞😞

Allah zindgia pa asani bguwazinat
Shahdad Shaad said…
Thanks all for ur love❤️

Popular posts from this blog

الفاظ سے خون لکھ رہا ہوں