الفاظ سے خون لکھ رہا ہوں
الفاظ سے خون لکھ رہا ہوں
11 نومبر 2022 بوقت رات 1:31
گوادر
عرصہ ہوگیا ہے میں پڑھنے اور لکھنے کے عمل سے دوری اختیار کرچکا ہوں جسے میں خواہشات کے برخلاف کہوں تو شاید غلط نہیں ہونگا۔ آخری بار 23 مارچ2020 کو کچھ ان گنت زخموں کو ہمیشہ زیرزمین دفن کرنے کی ناکام کوشش کی مگر یہ یادیں کمبخت ذہن پہ ایسے سوار ہوتے ہیں جیسے دونوں فرشتے انسانکے کاندھوں پہ سوار ہیں۔
میں چونکہ بدقسمتی سے بچپن کے تلخ تجربات اور نو سال کی عمر کی ابا کی وفات سے زندگی کی سایہ اور کھلونوں نے قبل از وقت محرومی سے انتہائیحساسیت کا شکار ہوگیا تھا جو بدبخت آج بھی میرے سر پہ یہ حساسیت سوار ہے جس نے مجھے بے تحاشا زخم اور تکلیف دیے ہیں ۔ ان تکالیف کو جبرمسلسلکی طرح سہنا شاید جہنم کی آگ سے بھی بدتر ہے۔ ماضی کے ان گنت تجربات اور پھر نامکمل اور ہمیشہ کے لیے ادھورے خواہشات۔۔۔۔ ہائے بدقسمت جوانی۔۔۔
اپنی حساسیت اور تلخ تجربات اور یادوں کے علاوہ گھروالوں کی یہ خواہش کہ میں پڑھ لکھ کر کوئی بڑا آفیسر بنوں گا اور ان کی بے رنگ زندگیوں کو رنگ بھردونگا۔۔ ان پہاڑ جیسے غموں نے میرے کمر پہ ہزار ٹن وزنی مزید غم رکھ لیے۔۔ ان غموں کو لیکر میں نے جوانی کے آٹھ سال شہر بدر گزار لیے مگر بجائےگھروالوں کے توقعات پورا کرنے کہ، میں نے خود کو توڑ ڈالا اور نہ تو کوئی بڑا آدمی بن سکا نہ ہی پڑھائی مکمل کرپایا۔۔۔
سادگی کا یہ عالم رہا کہ جس سے ہاتھ ملایا اس کو اپنا ہمدرد سمجھا، قدرت کے قانون کا پیچھا کرتے ہوئے ہرکسی سے ہاتھ ملانے کے ساتھ ساتھ دل ملاتاگیا۔۔ وقت گزرنے کے بعد پتہ چلا کہ ہاتھ ملانے والوں کے بغل میں چھرائیاں تھیں، پھر جب ہرکوئی اپنا رنگ دکھانے لگا تو میری یہ رنگ برنگی زندگی رنگوں سےمحروم ہوگیا۔ جس کو ہمدرد اور مسیحا سمجھ کر دکھڑے سناتا ہوگیا اور وقت آنے پر سانپ کا روپ دھارتا گیا۔۔۔ جن کو باوفا سمجھ کر وفا کیا وہ بے وفا نکلتےگئے۔۔ یوں ہی زندگی سبق سکھاتی گئی مگر یہ ناسمجھ سبق سیکھنے اور آگے جانے کے بجائے اسی سبق کو دُھراتا گیا،، شاید میں خود کو اور لوگوں کو موقعدیتا گیا کہ ممکن ہے اس شہر بے وفا میں کوئی وفادار نکلے۔۔۔ کوئی ایسا نکلے جس نے یہی دکھ درد سہے ہوں، جس نے زندگی کو روتے دیکھا ہو، جس نے کسیکے آنسو پونچھے ہوں مگر شومئی قسمت۔۔۔ میں تجربے دُھراتا گیا۔۔۔ سبق نہیں سیکھ پایا۔۔۔
درمیان میں دوست ملے، ہمدرد ملے۔۔۔ مگر کون کس کے لیے رُک جاتا ہے؟؟ ہرکوئی کسی منزل کی تلاش میں مسلسل سفر میں ہے۔۔۔ ہم نے جدھر راستہ دیکھا۔۔پکڑ لیا۔۔۔ یونہی منزل نہیں ملا مگر راستے ختم ہوتے گئے۔۔۔
زندگی میں ایسے موڈ بھی آئے کہ خدا سے بھی یقین ُاٹھ گیا کہ خدا واقعی رحیم اور رحمان ہے؟ بلکہ یوں کہہ لیں کہ خدا کی موجودگی پہ دل میں سوال آنےلگے
جو بھی ملا کوئی نہ کوئی سبق دے گیا
میری زندگی میں ہر شخص استاد نکلا
مگر قدرت کی ایک چیز بہت اچھی لگی، زندہ لوگوں نے تو فقط تکالیف اور زخم دیے مگر جہاں سے کوچ کرنے والے سہارہ اور ہمسفر بنتے گئے۔۔
زندگی جبرل مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
آؤ ایک سجدہ کرلیں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں ساغر کو خدا یاد نہیں
اس کی امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ
آپ عمز گزار دیجیے، عمر گزار دی گئی
ایک ہی حادثہ تو ہے وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کئی گئی، بات نہیں سنی گئئ
ساغر صدیقی، حضرت جون ایلیا، مرزا غالب، ساحر لدھیانوی منیرنیازی،فیض احمد فیض، شکیل بدایوانی،ناصر کاظمی اور بہت سے عظیم ہستیوں کی تخلیقاتساتھ رہے۔۔۔ انہوں نے حوصلہ بھی دیا، رُلایا بھی اور کبھی کبھار مضبوط بھی کیا،
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
ان ڈھائی سالوں میں اس حساسیت سے بچنے کے لیے اپنی مرضی و منشاء کے خلاف گیا، ان لوگوں سے تعلقات بھی رکھے جن سے زندگی بھر ملنے کی چاہتتک نہ کی تھی۔۔ خود بھی بدلنے کی کوشش بھی بہت کی، مگر ضرورت وقت کی وجہ سے جب ان سے علیحدگی اختیار کی تو خود کو وہیں پایا جہاں ڈھائی سالقبل تھا۔۔
اب زندگی کا یہ عالم ہے کہ نہ مزید جینے کی خواہش ہے نہ ہی مرنے کا غم۔۔۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ موت کے آگے جھکنا نہیں چاہتا تبھی جی رہا ہوں۔۔۔ ابنہ تو کسی سے کوئی امید ہے نہ ہی کوئی آسرا۔۔۔۔ بس زندگی کے دن گنتے جارہا ہوں۔۔۔
آج اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ زندگی جھوٹ ہے، فریب ہے، اگر کوئی آدمی انسان بننا چاہتا ہے تو اُسے صرف ازیتیں ہی ملیں گی۔۔۔۔ آج مجھے ان لوگوں پہ کوئیافسوس نہیں ہورہا جنہوں نے خود قبل از وقت زندگی کو خیرآباد کہہ دیا تھا۔۔۔
میں ان تمام کرداروں کا مشکور ہوں جنہوں نے مجھے بارہا نیچے گرایا اور کٹھن تجربات دے کر یہ سکھایا کہ آپ اکیلے جی لیں اور اکیلے مریں۔۔۔
شکست خوردہ
شاد
Comments