شال میں آگ  کو نہ ہونا دوزخ ہوگا یا احساس کا
شہداد شاد
5 نومبر 2018
شالکوٹ۔۔۔
17 ستمبر شاید میری زندگی کے ڈائری میں ہمیشہ سرفہرست ہوگا۔ اس دن میری ملاقات محبت، احساس، لگن سچائی اور گیان سے ہوئی تھی۔ میں نے اس ملاقات کو شاید پہلی اور آخری ہی سمجھا تھا مگر قسمت کبھی کبھار ہم پہ مہربان ہوگا یہ ممکنہ طور پر چونکنے والی بات تھی۔ جی ہاں! پھر مسلسل رابطے ہوتے رہے، محبت، احساس اور جدائی پہ ہمیشہ سیرِ حاصل گفتگو ہوتا رہا۔ ہماری ہمیشہ یہی بات دونوں طرف سے ایک ہی وقت کہا جاتا رہا کہ کب ایک دوسرے کو دیکھنے کا موقع ملے گا اور خوابوں کو حقیقی رنگ دیا جائیگا۔ یہ محض اتفاق تھا یا کوئی محبتی کرشمہ اس بات کا سراغ لگانا آج تک بھی کوسوں دور ممکن ہوتا نظر نہیں آیا۔
پھر بلوچستان کی خشک سالی کی طرح ہمارے رابطے بھی خشک سالی کا شکار ہوگئے ۔ 
ایسے لگا جیسے زیارت میں سردیوں کے موسم میں بھی گرمی کی حکومتی رہی، محبت کے بادشاہوں کی شہر میں نفرت راج کرنے لگا۔ کیچ کور میں مدتوں تک پانی نہیں آیا، راسکوہ کے پہاڑوں پہ مسلسل ایٹم بم مارے گئے۔
ساغر کی طرح ایسے لگا جیسے زندگی ایک جبر کی طرح ہے جو مجھ پہ زبردستی مسلط کیا گیا۔
تمہاری غیرموجودگی میں طرح طرح کے اذیت سہے ۔ تم ہوتے تو شاید یہ اذیت ناک لمحے سہنے کو نہ ملتے۔ تم سے دور ہونے کے بعد ان محبتوں اور جزباتوں سے میرا بھروسہ خاکستر ہوگیا۔ ہمیشہ یہی بات ذہن میں آتا رہا کہ یہ محض وقتی جزبات ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہونگے۔
تمہاری چاہت دن بہ دن بڑھتی رہی۔ تم سے حلف لیا تھا کہ تمہارا نام صیغہء راز میں رکھا جائیگا۔ مگر اب حالات کچھ اس طرح ہوئی کہ پاکستان کے پارلیمنٹ میں بیٹھے لیڈران کی طرح لیے گئے حلف کو توڑنا پڑا۔ وہ الگ بات ہے کہ میں نے یہ حلف(قسم) جبر سے بچنے کے لیے توڑا اور انہوں نے جبر کو مزید فروغ دینے لیے توڑا۔
بہرحال! پھر آپکی جستجو ہوتی رہی۔ آخرکار قسمت ایک دفعہ پھر غلطی سے مجھ پہ مہربان ہوگیا اور کسی دوست سے تمھاری پتہ مل گیا۔ پھر ایسے لگا جیسے بلوچستان کے قحط سالی علاقوں میں مہینوں بھر بارش ہوتی رہی، کیچ کور میں طغیانی ہوگیا اور راسکوہ کے دلبند میں پھول اُگنے لگے۔
بہت منتیں اور ٹھوکریں کھانے کے بعد آپکی دوست نے میری بات ماننے کی حامی بھرلی اور تم سے رابطہ کرالیا جن کا آج بھی میں مقروض ہوں۔
تمہاری پہلی پیغام میں تم نے پیار اور محبت کی احساس و یقین کو ایک دم میں مضبوظ کرلیا اور پھر پیار پہ یہی نقطہء نظریہ رہا کہپیار زندگی ہے، پیار نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
تم نے خیریت پوچھنے کے بعد یہی کہا کہ میںشالمیں ہوں۔ گویا اسی وقت مجھے شال سے بے پناہ محبت ہوا۔ کیونکہ شال نے تمھیں اپنی دلبند میں پناہ دیا تھا۔ تم نے انڈین فلموں میں لڑکیوں کی ڈائیلاگ کی طرح یہی کہا کہ شاد تم کہاں تھے؟ تم نے میرے بنا اتنا عرصہ کیسے گزارا؟ ان باتوں کا جواب دینے سے پہلے آپ نے ایک اور پیغام بھیجا کہشاد تم خوش تو ہو ناں!’
میں نے فوراً ہاں میں جواب دیا۔ وہ الگ بات ہے کہ اس وقت میں جس بستر پہ لیٹا تھا وہ اشکوں میں بہہ گیا تھا۔
تم نے ملنے کی خواہشw ظاہر کی اور اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ ناممکن تو نہیں پھر مشکل بہت ہے کہ تم مجھ سے بہت فاصلے پہ ہو ۔ میں نے پیار بھری انداز میں پیغام لکھا کہکیا ہوا اگر فاصلے ہیں ہماری دل تو ساتھ ساتھ ہیں ناں!” ۔ اس کے جواب میں تم نے بے شمار پیار دیے۔
جانِ بے وفا
میں تھارے اور اپنے مابین فاصلے کم رکھنے کے لیےشالآیا جہاں کبھی آیا نہیں تھا اور نہ ہی کبھی یہاں آنے کی خواہش ہوئی( تم سے رابطہ ہونے سے پہلے)۔ 
شال مجھے اس لیے عزیز ہیں کہ تمہاری جنّت قدمیں یہاں پڑتی ہیں۔
اور پھر بس کیا ہونے لگا! وہی جو انڈین پرانے فلموں کے آخر میں ہوتا ہے جس پر مجھے ہمیشہ نفرت رہا اور میری آنکھیں نم ہوتی رہیں۔
رابطے کم ہوتے گئے۔ میں ہمیشہ یہی سمجھتا رہا کہ تم شاید پڑھائی میں مصروف ہونگی کیونکہ تم ڈاکٹر بنّا چاہتی ہو۔ وقت گزرتا گیا اور فاصلے بڑھتے رہے حالانکہ میں شال میں ہی تھا۔  ایک رات تمہاری یادوں نے مجھے ان گنت تکلیف دیا۔ مسلسل تمھیں سوچتا رہا اور روتا رہا۔ تمھیں بے شمار پیغامات بھیجے مگر تم ہی تھے جو۔۔۔۔۔
رات سے لیکر صبح تک سگریٹ کے ڈبیاں ختم کرتا رہا اور یہی انتظار کرتا رہا کہ کب تمھاری پرکشش نگاہیں میرے ان پیغامات پر پڑھیں گے اور تم ہزار معذرت کے بعد اپنی جواب نہ دینے کی مجبوری بیان کردوگی اور میری اس بے چینی کو کوہِ باتیل کے نیچے والے قبرستان میں دفن کروگی۔ جب صبح دیکھا کہ تم نے میرے پیغامات دیکھنے کے بعد کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ مجھے کسی بھی طرح یقین نہیں آیا۔ میں نے سوچا شاید میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ پھر کیا کروں؟ ماننا ہی پڑا کہ یہ حقیت ہے۔۔
پھر بس یہی سوچتا رہا کہ یہ جتنے بھی کہانیاں(جسے میں محبت سمجھا تھا) انڈین فلم ہی ہوتے رہے اور عطاء شاد کہ اس مصرعے (کوئٹہ ءَ آس مہ بیت دوزہ بیت( کوئٹہ میں آگ نہ ہو تو دوزخ ہوگا) پہ یقین اڑ گیا اور سوچنے لگا کہ کوئٹہ میں آگ کا نہ ہونا دوزخ ہے یا احساس کا نہ ہونا۔ یہی سوچ رہا تھا کہ اس کی ایک پیغام آئی کہشاد تم بہت بکواس کرتے ہو مجھ سے اتنا سہی نہیں جاتی لہذا تم مجھ سے ۔۔۔۔۔
جس کی وجہ سے اپنی کا دوست کا ہمیشہ کے لیے مقروض رہا ، وہ شخص چھوڑ گیا مگر قرض ہمیشہ کے لیے میرے اوپر رہا۔
سگریٹ جلتا رہا اور سگریٹ سے پیار ہونے لگا ۔


Comments

Popular posts from this blog

الفاظ سے خون لکھ رہا ہوں