میری یادوں کی شمع جلائے رکھنا
“میری یادوں کی شمع جلائے رکھنا”
شہداد شاد
13 فروری 2018
کراچی
جانم!
سارا دن اچُھل کھودنے کے بعد جب تھکاوٹ محسوس ہوئی تو دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر اپنی ماضی پہ ایک سیر کرنے کو نکلا۔۔۔۔
میں جب بھی لفظِ ماضی کو خیالوں میں لاتا ہوں تو میری ماضی ہمیشہ وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں میں پہلی دفعہ اپنی حقیقی دنیا میں اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔۔ حقیقی دنیا سے مُراد وہ دنیا جہاں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی جگہ تمھاری وجود درمیان میں آجاتی ہے۔
جب تم یاد آئے تو جیب سے موباہل نکال کر تمھاری تصویر دیکھنے کی کوشش کی تو آنکھوں میں آنسوؤں کے ‘گلیشئر’ پگلنے لگے۔۔ میں ہمیشہ ہرجگہ اپنی جزبات کو قابو کرنے میں کامیاب ہوتا تھا مگر اس مرتبہ ۔۔۔۔ آخر میں کیسے تمھاری کمی برداشت کرسکتا۔۔۔ اسی لیے رو دیا۔۔۔
اس دفعہ میں اتنا رویا کہ بس آنسوؤں کی دریا بہنے لگی اور اس دریا پہ تمھاری ‘عکس’ آویزاں تھی۔
میں تمھیں اس وقت بہت قریب سے دیکھ رہا ہوں۔۔۔ تمھیں یاد ہے ‘باغِ جنّت(وہ جگہ جہاں ہماری ملاقاتیں ہوتی تھیں)’ میں جب میں نے تمھیں الوداع کرنے کی حیثیت سے تین دفعہ گلے میں لگایا تھا۔ تین دفعہ گلے لگنے کے بعد بھی مجھے یوں محسوس ہوا کہ ابھی تک گلے ملنا باقی ہے۔ تمھیں یقیناً یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ تم نے گلے ملنے کے وقت کہا ‘شادجان! تمھاری باؤں میں مجھے جنّت دکھائی دیتی ہے’۔ میں اس بات کہ جواب میں مسکرانے کے بعد فقط اتنا کہا کہ ہم ‘جنّت’ میں ہی تو ہیں۔ یہ سن کر تم شرماگئی۔
مہروان!
تُمھیں پتہ ہے میں اُس وقت کیوں مُسکرایا؟
چلیں! آج آپ سے دور ہونے کے باعث اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے مسکرانے کی وجہ آپ سے شیئر کرونگا۔۔
جب جب نے مجھے زور سے اپنی باؤں میں لے لی تھی اُس وقت میں اتنا خوش تھا کہ فیروزلغات،سیدگنج اور آکسفورڑ ڈکشنری کے کے الفاظ بھی اس خوشی کو بیان کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھے، اسی لیے میری آنکھوں میں آنسوؤں تھے، مگر آپ نے یہ آنسوؤں نہیں دیکھے کیونکہ میں نے تمھاری باؤں سے الگ ہونے سے پہلے آنسو پونچھے تھے۔ مگر تُم نے یہ ضرور پوچھا تھا کہ تمھاری آواز کیوں تبدیل ہوگئی ہے؟ میں نے ‘زُکام’ اور ‘نزلے’ کو بہانہ بنا کر پیش کیا اور ان کی شان میں بے حرمتی کرکے تُم سے جھوٹ بولا۔
اور الوداع ہوتے وقت تم نے یہ کہی تھی ‘شادُل ! میں اس امید سے آپ کی ہاتھ چھوڑ رہی ہوں کہ کسی دن تم میری یہ ہاتھ تھامنے ضرور آؤگے۔’
آج آپ کو یہ بات بتادوں کہ میں نے ہزاروں ہاتھ تھامنے سے معذرت کی تھیں فقط اس امید سے کبھی یہ بیچارے ہاتھ تمھاری ہاتھوں کو تھامنے آئینگے۔۔
اور یہ انتظار اور امید کل بھی تھی، آج بھی ہے اور کل بھی ہوگا۔۔
رات کے 3 بج گئے ہیں۔ اور میں 7 ارب لوگوں کے اندر ‘تہنا’ بیٹھا ہوں۔۔
سوچ رہا ہوں کہ پیار کو بد دُعا دوں یا خود کو۔۔۔
باقی پھر کبھی۔۔۔۔۔
Comments