“یادیں”
شہداد شاد
12 جنوری 2018
شالکوٹ
اب میں شال سے واقف ہوچکا ہوں۔ شال کی تنگ گالیاں مجھے پہچانتے ہیں اور ان گلیوں سے گزر ہوتے وقت مجھے وہ گلیاں یاد آتی ہیں جس گلیوں میں میں تم سے شناسا ہوا ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ گلیاں بیگانے تھے اور یہ اپنے ہیں۔
یہاں میں نے ایک روشن مستقبل کی نوید دیکھی ہے۔ صبح سورج نکلنے سے پہلے سخت سردی میں میرے قوم کے نوجوان تعلیمی اداروں کا رُخ کرتے ہیں۔ صبح ساتھ بجنے سے پہلے لائبریریوں کی دروانے کے سامنے رش کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بلوچ قوم کچھ مہینوں کے اندر دنیا کو پیچھے چھوڑ جائے گا۔ وہ الگ بات ہے کہ نوجوان لائبریری اور تعلیمی اداروں میں بیٹھ کر مطالعہ پاکستان میں جھوٹ پڑتے ہیں یا پھر بائیالوجی میں قرآنی آیات پڑھتے ہیں۔
ان لمحوں کو دیکھ کر دل میں خواہش ابھر آتی ہے کہ کاش گوادر و ڈیرہ بگٹی بھی اس طرح ہوتے جہاں ہرکوئی اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہوتا۔
اگر کسی نوجوان کو زندگی کے سارے رنگ دیکھنے ہوں تو وہ شال کا رُک کرے۔
یہاں ہر جگہے پہ ہروقت رش ہوتا ہے چاہے وہ کوئی تعلیمی ادارہ ہو یا کسی چائے کا ہوٹل یا پھر کوئی وائن اسٹور۔
یہاں میں زندگی کو کہیں کسی لگژری گھر میں عیاشیاں کرتے دیکھا تو کہیں شدید سردی میں کسی فُٹ پاتھ پہ بھیک مانگتے یہ کہتے ہوے ‘ لالا! 10 روپے اتہک!’۔
مجھے ابر(نیچر) سے ہمیشہ محبت رہا ہے ۔ مجھے ابر میں وہ تمام رنگ نظر آتے ہیں جو میں نے تم میں دیکھے ہیں۔
حسبِ معمول اکیڈمی سے واپسی پہ بس اسٹاپ کی طرف جا رہا تھا تو اچانک ایک لڑکی ایک لڑکے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور اس کی طرف بھاگ کے اسُے گلے لگ گئی۔
یہ لمحہ دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ شاید دو بچھڑے زندگیاں ایک مرتبہ پھر ایک ہوگئیں۔ اور مجھے تم اس وقت بہت یاد آئے۔ میری آنکھیں خوشی سے بھی نم تھیں اور غم دے بھی۔ دل کہہ رہا تھا کہ جاؤ ان کو گلے لگا کر بے شمار مبارکبادیں دو۔
ان کے پاس جا ہی رہا تھا کہ پیچھے مجھ جیسا ایک اور عبدلحمید عدم کا یہ شعر سنانے لگا کہ :
گلے ملتے ہیں جب راہ میں دو بچھڑے ساتھی
عدم ہم بے سہاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
یہ سن کر میں واپس ہوگیا۔۔۔۔۔۔
Comments
Salamat bateh