نیچر اور شال
“نیچر اور شال”
شہداد شاد
26 جنوری 2019
شالکوٹ
شال میں جب بادل آسمان کے دلبند میں سج جاتے ہیں تو موسم ایک بار پھر دلہن بن جاتا ہے۔ مجھے بچپن سے ایسے موسموں اور بارشوں سے بے محبت اور لگاؤ تھا۔ جب لاشعوری دور میں اپنے آبائی گاؤں میں ہوا کرتا تھا وہاں پہ جب بھی بارشیں ہوتی تھی میں اپنے گھر کے پیچھے چھوٹے پہاڑوں اور بندات کی جانب دوڑ پڑتا۔ جب بادل گرجتے اور بارش تیز ہوجاتی تو میں کھلے آسمان میں سر اوپر کرکے نیچر سے لطف اندوز ہوتا۔ شاید اس وقت نیچر سے قربت میں حساسیت نہیں تھی چونکہ لاشعوری دور تھا اور چیزوں کو طرف ظاہری طور پر دیکھنے کا مہارت رکھتا ۔ ھدامرزی پِتاجی ہمیشہ ایسے مواقع پہ ناراضگی کا اظہار کرتے اور کہتے کہ ایسے موسم میں یوں باہر مت گھوما کرو تمہیں بخار کھانسی ہوگی۔
اسی خیالات میں مگن تھا کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ شال میں بارش بھی میرے دل کی زخموں کی طرح اپنی برداشت کھو بیٹھے اور برسنے لگے۔
میں ایک بار پھر باہر سڑک پہ کھڑا ہوکر آسمان کی طرف دیکھنے لگا اور ماضی کے وہی یادیں تازہ ہوگئیں ۔ اچانک ایک آواز آیا کہ “پاگل سڑک کے کنارے سے ہٹ جاؤ یہاں راستہ بند نہ کرو”۔ سر نیچے کرتے ہی دیکھا کہ ایک صاحب کا گارڈ ایسا بول رہا ہے جو صاحب کے کروڑوں روپے والی لیگزز میگزز میں بیٹھا ہے۔ چونکہ صاحب کا حکم تھا تو مجھے ہٹ جانا پڑا ورنہ سینے کو گولیوں سے چھلنی کردیا جاتا اور یہ کوئی چونکنے والا بات بھی نہیں تھا کیونکہ میں جس مٹی اور سرزمین پہ کھڑا تھا اس پہ خون بہانے کی قیمت ایک بوتل پانی کی قیمت سے کم تھا۔
یہ لمحہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ میں ایک غریب بے نوا اور فقیر بے صدا ہوں۔ گویا کہ میرے پاس پیسہ گاڈی دولت وغیرہ نہیں ہے مگر نیچر سے ہم آہنگی اور قربت ہے۔ اس حادثے سے مجھے یہ احساس ہوا کہ ان بڑے لوگوں ازلی زندگی سے کبھی قربت نہیں رکھتے۔
بارش بھی رک گیا اور عین وقت پاس گُزرے لوگ جن کے ہاتھوں پہ کتاب اور قلم تھے یہ لمحہ دیکھ رہے تھے بلکل نیچر کی یوں تذلیل ہوتے دیکھ کر حیران بھی نہ تھے۔ پھر یوں ہوا کہ :
حادثے سے بڑا حادثہ یہ ہوا کہ
لوگ چونکے نہیں حادثہ دیکھ کر
بہرحال ! سوچا کہ یہاں سے نکل کر ریلوے اسٹیشن کی طرف جاؤں کہ شاید وہاں پہ زندگی کے مسافروں سے گفت شنید ہو۔
ریلوے اسٹیشن کی طرف جا رہا تھا کہ ایک بار پھر بادل گرجنے لگے اور بارش تیز ہوگئی۔ اور میں ریلوے اسٹیشن کی طرف جارہا تھا مگر اس بار مجھے کوئی ڈسٹرب کرنے والا نہیں تھا اور میں نیچر سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔
میں ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا اور دیکھا کہ تھوڑی دیر پہلے ایک مسافر ٹرین یہاں آگئی ہے اور مسافر ٹرین سے نکل پر اپنی منزل کی طرف جارہے ہیں۔
سر ایک طرف گھماتے ہی دیکھا کہ ایک خوبصورت پیارا نوجوان ایک کونے پہ کھڑا ہو کر بارش میں بھیگ رہا ہے اور مسلسل آسمان کی طرف دیکھ رہا ہے۔
پاؤں میں ساخت ڈال کر اس نوجوان کے پاس گیا تو دیکھا کہ وہ آسمان کی طرف دیکھتے دیکھتے آبدیدہ ہوگئے ہیں۔ میں بہت حیران تھا ۔
اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا ‘ سنگت! کیا ہوا ہے؟”
میری طرف دیکھ کر کچھ کہے بنا پھر آسمان کی طرف دیکھنے لگے۔ میں اس کو دیکھتا رہا۔ مجھ سے رہا نہیں گیا پھر میں نے کندھے پہ ہاتھ رکھ کہ پوچھا “سنگت ! اس کی کمی محسوس ہورہی ہے؟”
وہ ایک دم میری طرف دیکھ کر بولنے لگے “ اس نے پچھلے سال مجھ سے قسم کھائی تھی کہ جب بھی بارش ہوگی ہم دونوں باہر جائیں گے کھلے آسمان میں میں بیٹھ کر تمہارے سر کو اپنے گود میں رکھونگی اور تم نیچر سے لطف اندوز رہہ کہ مسکراتے رہنا اور میں فقط آپکی مسکراہٹ دیکھتی رہونگی۔ آج بارش ہورہی ہے نیچر بے تحاشا خوبصورت ہے مگر اس کی کمی نے سارے ارمانوں پہ پانی پھیر دیا ہے”۔
میں غالب کا یہ مصرعہ کہہ کر وہاں چل پڑا
“زندگی صبرِ طلب تمنا بیتاب”
اب بارش تیز ہوگئی تھی اور سامنے نظر آنے والے شال کے پہاڑوں پہ برفباری ہوری تھی اور میں نیچر سے نکل چکا تھا۔
بارش تیز تھا سردی بھی حد سے زیادہ تھا مگر اس بار پِتاجی کے وہ ڈانٹ بہت یاد آئے کہ ایسے موسم میں مت گھوما کرو ۔۔۔۔۔۔۔
Comments