ملار 

11 اکتوبر 2020 
 شال

میں نے خود کو وقت کے اس طرح حوالے کیا ہے کہ وقت جس سمت پہ کروٹ لیتا ہے میں بھی اسی سمت پہ بنا کچھ سوچے سمجھے نکل جاتا ہوں، جب انسان اپنے لیے منزل اور راستے کا تعین نہیں کرتا ہے تو وہ ہر رستے کا مسافر بن جاتا ہے مگر منزلوں سے دور ہوتا ہے جوکہ آخر میں عموماً ناکامی کا سبب بن جاتا ہے۔
دو دن قبل سوشل میڈیا پہ ایک پوسٹ گردش کررہا تھا کہ 11 اکتوبر کو نوری نصیر خان کلچرل کمپلکس میں کمالان بیبگر کا فلم "ملار" کا اسکریننگ ہوگا،  تو میں نے بھی فلم دیکھنے کا خواہش ظاہر کرتے ہوئے بالاچ قادر کو ایک ٹکٹ میرے نام پہ کٹوانے کا سندیس بھیجا۔
خیر آج شام 6 بجے کے وقت نوری نصیر خان کلچرل کمپلکس پہنچ گئے، جب اندر داخل ہوا تو ملار فلم کو دیکھنے کے لیے آئے مجمعہ پہ نظر پڑی تو ایک بڑی خوشی دل میں محسوس ہونے لگے، میں نے اپنی زندگی میں ایک بلوچی فلم دیکھنے کے لیے اتنے لوگ نہیں دیکھی تھے، شاید حسبِ روایت یہ شال کی بلوچ و بلوچی سے محبت تھی کیونکہ شال کا دلبند بلوچوں کے ہرلحاظ میں سینہ تان کر حاضر رہا ہے، تھوڑی دیر بھی ساتھی انور بلوچ اور شکور بلوچ بھی پہنچ گئے۔۔

نوری نصیر خان ہال میں ہاؤس فل ہونے بعد فلم کی اسکریننگ شروع ہوئی، 
عبدالحمید عدم اپنے بے بسی بیان کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں،

گلے ملتے ہیں جب راہ میں دو بچھڑے ہوئے ساتھی
عدم ہم بے سہاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے

فلم کے مرکزی کردار رفیق گل نہ صرف اپنے جزبات کی ترجمانی کرتے رہے، بلکہ مجھ سمیت اس ہال کے اندر سینکڑوں لوگوں، اور ہال سے باہر لاکھوں کی کہانیوں کی ترجمانی کررہا تھا۔
المیہ یہ تھا کہ وہ تمام لوگ ما سوائے ڈاکٹر کہ، جو رفیق کو پاگل کہہ رہے تھے، دراصل وہی لوگ پاگل ہیں کیونکہ انہوں نے رفیق کو سمجھنے کی کہیں بھی کوشش نہیں کی، رفیق اپنے اندر ہزاروں تکالیف لیے زندگی کررہا تھا،
اس معاشرے میں پتہ نہیں کتنے رفیق سمّی کی عشق میں گرفتار ہوکر زندگی کو رخصت کرگئے ہیں اور نہ جانے کتنے اپنے اندر سے نکل کر کوئی دوسرا شخص بننے پہ مجبور ہوئے ہیں جنہیں اس معاشرے میں کوئی قبول نہیں کرتا، بہرحال رفیق نے عشق میں زندگی کے سامنے گھٹنے تو ٹیک دیے مگر عشق کا پرچم بلند رکھا۔

اگر ہم اپنے معاشرے کے اردگرد میں موجود دیگر رفیق کا خیال رکھیں، انہیں سنیں، سمجھیں اور ان کے لیے راستہ نکالیں تو ہم رفیق گل کو زندہ رکھ سکیں گے۔

چونکہ مجھے فلمی دنیا سے تقریباً ایک فیصد بھی علم و آگاہی نہیں ہے تو فلم پہ مثبت اور منفی بحث بھی نہیں کرسکتا، البتہ بولنے کا حق ہونے کے ناطے دو جملے کہنا چاؤں گا

پہلا یہ کہ اس فلم میں سنیمیٹوگرافی اور لائٹنگ بہترین تھا، کہانی بھی بہترین تھی، تمام کرداروں نے بہترین انداز میں اپنا رول نبھایا، 

دوسرا یہ کہ اس فلم میں خاتون یعنی کہ سمّی کی رول بہت کم رہی، اگر اس میں خاتون کا رول زیادہ ہوتا تو بلوچی فلم انڈسٹری میں خواتین کی مزید جگہ پیدا ہونے کے لیے مثبت عمل رہتی۔

تیسرا یہ کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ رفیق گل کب، کیسے کہاں اور کس طرح سمّی کے عشق میں گرفتار ہوگئے۔

کمالان بیبگر اور ملار فلم میں کردار ادا کرنے والے اسکرین کے سامنے اور اسکرین کے پیچھے کام کرنے والوں کو میرا سلام اور مبارکباد!

شاہ داد شاد

Comments

Popular posts from this blog

الفاظ سے خون لکھ رہا ہوں