میری یادوں کی شمع جلائے رکھنا
“ میری یادوں کی شمع جلائے رکھنا ” شہداد شاد 13 فروری 2018 کراچی جانم ! سارا دن اچُھل کھودنے کے بعد جب تھکاوٹ محسوس ہوئی تو دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر اپنی ماضی پہ ایک سیر کرنے کو نکلا۔۔۔۔ میں جب بھی لفظِ ماضی کو خیالوں میں لاتا ہوں تو میری ماضی ہمیشہ وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں میں پہلی دفعہ اپنی حقیقی دنیا میں اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔۔ حقیقی دنیا سے مُراد وہ دنیا جہاں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی جگہ تمھاری وجود درمیان میں آجاتی ہے۔ جب تم یاد آئے تو جیب سے موباہل نکال کر تمھاری تصویر دیکھنے کی کوشش کی تو آنکھوں میں آنسوؤں کے ‘ گلیشئر ’ پگلنے لگے۔۔ میں ہمیشہ ہرجگہ اپنی جزبات کو قابو کرنے میں کامیاب ہوتا تھا مگر اس مرتبہ ۔۔۔۔ آخر میں کیسے تمھاری کمی برداشت کرسکتا۔۔۔ اسی لیے رو دیا۔۔۔ اس دفعہ میں اتنا رویا کہ بس آنسوؤں کی دریا بہنے لگی اور اس دریا پہ تمھاری ‘ عکس ’ آویزاں تھی۔ میں تمھیں اس وقت بہت قریب سے دیکھ رہا ہو...